عمران خان کا ’اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان‘ بہترین سیاسی چال یا محض فیس سیونگ کارڈ ہے؟

پاکستان تحریکِ انصاف نے جب سے 26 نومبر کو اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں اجتماع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ عمران خان آخر اس اجتماع میں اگلا لائحہ عمل کیا دیں گے۔
عمران خان کی جانب سے حقیقی آزادی مارچ کے آغاز سے ایسا لگ رہا تھا کہ اب وہ اور ان کی جماعت بالآخر اسلام آباد پہنچ کر پڑاؤ ڈال لیں گے اور پھر الیکشن کی تاریخ کے مطالبہ پورا ہونے تک وہیں ڈھیرے ڈالے رہیں گے۔ اس کی ایک خاص وجہ تو سنہ 2014 میں تحریک انصاف کا نواز شریف حکومت کے خلاف 126 دن کا ڈی چوک میں دھرنا تھا۔
اپنے ’حقیقی آزادی مارچ‘ کے آغاز سے قبل عمران خان نے ملک بھر میں جلسے کیے اور اس عرصے میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اکثریت سے کامیابی بھی سمیٹی۔ عمران خان نے ان نتائج پر اپنے آپ کو ملک کا مقبول ترین سیاسی رہنما قرار دیتے ہوئے حکومت سے جلد انتخابات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
مگر راولپنڈی پہنچ کر عمران خان نے جو کہا وہ شاید بہت سارے سیاسی ماہرین کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس عرصے میں خود تحریک انصاف نے بھی متعدد سمجھوتے کیے۔
پہلے تو تحریک انصاف اپنے اسلام آباد داخل ہونے کے اعلان سے پیچھے ہٹی، اس کے بعد سابق حکمراں جماعت کو فیض آباد کا مقام بھی حاصل نہ ہو سکا اور ان کے اس اجتماع کو کڑی شرائط کے ساتھ راولپنڈی کے سکستھ روڈ کی طرف دھکیل دیا گیا۔
راولپنڈی پہنچ کر عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے اور ساری اسمبلیوں سے نکلنے لگے ہیں۔‘
لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ہم بجائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں، بجائے اپنے ملک میں تباہی کے، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کرپٹ نظام سے باہر نکلیں اور اس سسٹم کا حصہ نہ بنیں، جدھر یہ چور بیٹھ کر ہر روز اپنے اربوں روپے کے کیسز معاف کروا رہے ہیں۔
عمران خان نے شرکا کو بتایا کہ وہ اب اسلام آباد کا رخ نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ’جب لاکھوں لوگ اسلام آباد جائیں گے تو کوئی نہیں روک سکتا لیکن فیصلہ کررہا ہوں کہ اسلام آباد نہیں جانا کیونکہ مجھے پتا ہے اس سے تباہی مچے گی‘۔
بی بی سی نے عمران خان کے اس اعلان اور فیصلے پر اس مارچ پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین سے بات کی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں عمران خان کا یہ اعلان ان کی طرف سے اٹھایا گیا پہلا سنجیدہ قدم ہے۔ ان کے مطابق یہ آپشن پہلے دن سے عمران خان کے پاس موجود تھا مگر انھوں نے اس آپشن کو استعمال نہیں کیا۔ سہیل وڑائچ کی رائے میں یہ بہت ’سیریز تھریٹ‘ ہے کیونکہ بجائے اس کے کہ وہ اسمبلی واپس جائیں وہ صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفیٰ دے رہے ہیں۔
’اس کا مطلب ہے کہ وہ سسٹم کے ساتھ صلح کرنے سے انکاری ہیں۔‘
ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کے خیال میں عمران خان کا یہ اعلان فیس سیونگ ہے کیونکہ ابھی یہ اعلان ہی ہے فیصلہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ ہم مشاورت کریں گے۔

واضح رہے کہ عمران خان نے راولپنڈی میں تحریک انصاف کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے (پنجاب اور خیبر پختونخوا کے) وزرائے اعلیٰ سے بات کی ہے، پارلیمنٹری پارٹی سے بھی مشاروت کر رہا ہوں، آنے والے دنوں میں اعلان کریں گے کہ جس دن ہم ساری اسمبلیوں سے باہر نکل رہے ہیں۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق عمران خان نے سوچا کہ ایک ’ایونٹ پیدا‘ کیا جائے جس پر میڈیا میں بحث جاری رہے اور یوں تحریک انصاف کو فیس سیونگ ملک جائے گی۔
سہیل وڑائچ کے خیال میں بہتر تو یہی تھا کہ عمران خان اسبملیوں میں واپس آتے، جس بات کی حکومت بھی انھیں صلاح دے رہی تھی اور پھر وہ انتخابی اصلاحات کرتے، کوئی نگران حکومت بنے، اس پر مشاورت ہوتی۔ تاہم ان کے مطابق اسمبلیوں سے باہر رہنے پر بہرحال ایک انارکی پیدا ہو گی۔